مسلم مورخ سچ لکھتا ہے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ہے۔ ٹیپو سلطان تاریخ اسلام کا وہ لازوال کردار ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا ۔تاریخ عالم شاید ہی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی۔ایک جری سپاہی اور بہترین سپہ سالار اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی۔سلطان ٹیپو کو اس دنیا سے رُخصت ہوئے تقریبا دو سو بارہ سال بیت چکے ہیں لیکن سلطان ٹیپو کی عظمت کاثبوت یہ ہے کہ اب بھی اس کا نام لوگوںکے دلوں پر لکھا ہواہے۔سلطان فتح علی خان المعروف ٹیپو سلطان کاباپ حیدرعلی میسور کاحکمران تھا۔ اس نے انگریزوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں اور ان میں کامیاب ہوا مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کواس(انگریزوں کے )خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (1313 ھ1799 ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔۔ سلطان ٹیپو نے فن سپا گرمی اپنے باپ سے سیکھاتھا۔ وہ کمال درجے کا دلیر اور بہادر حکمران تھا،جس نے ساری زندگی فرنگی راج کے خلاف جدوجہد میںگزاری ۔ اور اسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کردی۔
ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور مسلمانانِ ہند تقسیم ہو رہے تھے۔ ٹیپو سلمان نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی ۔ٹیپو سلطان نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ یوروپ کے انقلاب کی بدولت انگریزوں کے پاس جدیدترین اسلحہ اورجنگی ساز وسامان موجود ہیں۔ اس کا مقابلہ پرانے اور فرسودہ جنگی آلات سے نہیں کیا جاسکتا۔اس لئے اس نے بڑے پیمانے پر نئی تکنیک استعمال کرکے جنگی ساز وسامان تیار کروائے۔ اس نے نہ صرف پیدل افواج اور گھوڑسواروں پر خصوصی دھیان دیا بلکہ بحریہ کو بے انتہا مضبوط اور جدیدترین بنایا۔ بحریہ کاقیام ٹیپوسلطان کاایک عظیم کارنا مہ ہے۔ وہ ہندستان کا پہلا حکمران تھا۔ جس نے سمندری راستوں کی اہمیت کااحساس کیا اور اس کا باضابطہ انتظام کیا۔ اس نے ہندوستان کے ساحلوں کی حفاظت کے لئے بحر ہند میںبصرہ، بوشہر، عمان اور عدن کی بندرگاہوں کی نگرانی ضروری سمجھی۔ سلطان کی بحری فوج میں گیارہ سیریم Lord of Admiralityاور تیس امیر البحر تھے، جن میں دس ساحل پر اور بیس جہازوں پررہتے تھے۔ ملاحوں یعنی بحری جہازوں کے عملہ کی تعداد دس ہزار پانچ سو بیس تھی۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ سلطان نے 1799میںایک سو جنگی جہازوں کی تیاری کا حکم دیاتھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پورا جہاز اپنے تمام کل پروزوں کے ساتھ ریاست کے اندر ہی بنایا جاتاتھا۔ بقول محمود بنگلوری : ’’مٹی کے مصنوعات ، لکڑی کاکام ،چرم سازی، تیل اور تیل کی دیگر مصنوعات، صندل ، رسّی،قالین ،ہاتھی دانت کاکام، نمک بنانا ، کاغذ پر سونے کارنگ چڑھانا اور لطیف ریشم، روئی کی مصنوعات ، لوہے کی مصنوعات ، سلطان ٹیپو کے کمالات کی فہرست کے طورپر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ بقول نسیم حجازی:’’ شیر میسور کی فتوحات صرف جنگ کے میدانوں تک ہی محدود تھیں بلکہ وہ بیک وقت ایک ایسا حکمران ،عالم اور مفکر اور مصلح تھا جس کے دل ودماغ کی وسعتوں میںہند کے ماضی کے عظمتیں، حال کے ولولے اور مستقبل کی آرزوئیں سماگئی تھیں۔وہ ہمیں زندگی کی ہردوڑ میں اپنے واقت سے کئی منزلیں آگے دکھائی دیتاہے۔ اس نے ایک ایسے دور میںفلاحی ریاست کانمونہ پیش کیاتھا جب باقی ہندوستان کے نواب اور راجہ اپنی رعایا کی ہڈیوں پرعشرت کدے تعمیر کررہے تھے۔ اس نے اس زمانہ میںبین الاقوامی اتحاد کے لئے جدوجہد کی تھی،جبکہ دیگرممالک اپنے نااہل حکمرانوں کی تنگ نظری ، کمزوری ،بے حسی، اورباہمی رقابتوں کے باعث مغرب کے سامراجی بھیڑیوں کے لئے ایک عظیم شکار گاہ بناچکے تھے۔ اس نے ہندوستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقہ میںعدل و مساوات کے جھنڈے گاڑھے تھے، جہاں صدیوں سے جہالت اور افلاس کی تاریکیاں مسلط تھیں۔ حیدرعلی اور ٹیپو سلطان سے قبل میسور کے عوام کی کوئی تاریخ نہ تھی لیکن ان کی حکمرانی کے چند برس پورے ہندوستان کی تاریخ پر چھائے ہوئے ہیں۔مورخ سنکلیر اپنی تاریخ ہندمیںلکھتاہے ’’جس وقت انگریزی فوجیں ٹیپو سلطان کے ملک میںداخل ہوئیں۔ تودیکھا گیا کہ تمام رعیت (ہندو اورمسلمان) نہایت خوشحال ہے۔ ٹیپو سلطان کی ایک چھوٹی سی ریاست میںاٹھارہویں صدی میںجاگیرداری کاخاتمہ کرنا ایک طرح سے جمہوریت کاآغاز تھا۔ سلطان نے زمین داری کے نظام کو ختم کرکے زمین کوحکومت کی ملکیت قراردیا۔
ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہو کر اعلان کردیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ہلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ہے۔ اور پھر مئی 1799 ء 29 ذی قعدہ 1213 ہجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے اپنے طاﺅس نامی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا ۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار گرگئی تھی۔ اس نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ کرغسل کیا۔ یاد رہے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگا تھا ۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتا رہا۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترا ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھاکہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ ٹیپوسلطان نے سپاہیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے تو معلوم ہوا کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہو گیا ہے اور انگریزی فوج بلاروک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوا چند جانثاروں کو ساتھ لیا اورقلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا۔ ٹیپو سلطان کے باہر نکلتے ہی غدار ِ ملت میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آسکیں۔ اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ءامت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر4/مئی 1799کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر ٹیپو شہید کہلایاجب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔“(ہندوستانی مسلمان ص137) اس غداری کی سزا میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی۔ اس کی تفصیل تاریخ دان صاحب حملات حیدری نے بیان کی ہے کہ میرصادق نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آکر دربانوں کو کہاکہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کرلینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک سپاہی ملازم سلطانی آ کر اسے لعن طعن کرنے لگا کہ اے روسیاہ ،راندہ درگاہ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ تو سلطان دین پرور محسن عالی گوہر , ٹیپو کو دشمنوں کے جال میں پھنسانے کے بعد اپنی جان کیسے بچا لئے جاتا ہے کھڑا رہ ،روسیاہی کے کاجل سے اپنا منہ تو کالا کر لے ۔یہ کہتا ہوا کمال طیش سے ایک ہی وار میں اس کو آب تیغ سے شربت اجل پلا گھوڑے کی زین سے زمین پر مار گرایا۔ اس بدبخت میر صادق کی لاش چاردن تک گلنے سڑنے کے بعد قلعے کے دروازے پر بغیر کفن کے دفن کر دی گئی۔ آج بھی لوگ آتے جاتے قصداً اس ننگ آد م ، ننگ دین، ننگ وطن مردود کی قبر پر تھوکتے ،پیشاب کرتے اور ڈھیر کے ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں ’’ افسوس صد افسوس کہ آج کے ننگ ِ دین غداروں نے ابھی تک میر صادق کے عبرت ناک انجام سے نہ کوئی سبق سیکھا ہے نہ ہی سیکھیں گے۔