صرف بائیس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کے لیے نکلا۔
یہ اس کے باپ کا خواب تھا اور وہ اس کے لیے تیار ی بھی مکمل کر چکا تھا لیکن اس کے دشمنوں نے اسے قتل کرا دیا۔ اب یہ ذمہ داری سکندر پر عاید ہوتی تھی کہ وہ اپنے باپ کے مشن کو کس طرح پورا کرتا ہے۔
باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کے بغیر ہی اسے مقدونیہ کی حکمرانی مل گئی تھی۔ ورنہ اس زمانے کا قاعدہ تو یہی تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوتے ہی تخت کے حصول کے لیے لڑائیاں شروع ہو جاتیں اور اس لڑائی میں ہر وہ شخص حصہ لیتا جس کے پاس تخت تک پہنچنے کا ذرا سا بھی موقع ہوتا۔ سکندر ایک تو اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، دوسرا اس وقت مقدونیہ کی حکمرانی کا کوئی اور خاص دعوے دار نہیں تھا۔ لیکن احتیاط کے طور پر سکندر نے ایسے تمام افراد کو قتل کرا دیا جو کسی بھی طرح اسے نقصان پہنچا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کے اکسانے پر اس نے اپنی دودھ پیتی سوتیلی بہن کو بھی قتل کر دیا۔
سکندر کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا تھا جو اپنے زمانے کا قابل اور ذہین ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے باپ "فلپس" نے اپنے بیٹے کی جسمانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس کے لیے اسے شاہی محل سے دور ایک پر فضا مقام پر بھیج دیا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی سے وہ سست نہ ہو جائے۔ یہاں سکندر نے جسمانی مشقیں بھی سیکھیں اور گھڑ سواری، نیزہ اور تلوار بازی میں مہارت بھی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ارسطو اس کی ذہنی تربیت بھی کرتا رہا۔
حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں سکندر نے "ایتھنز" (یونان کا دارالخلافہ) سمیت دیگر پڑوسی ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی مہم پر نکلنے سے پہلے وہ نہ صرف اپنی فوج کو مضبوط کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کو یہ فکر بھی تھی کہ کہیں اس کی غیر موجودگی میں کوئی مقدونیہ پر حملہ نہ کر دے۔ دو سال اس کام میں بیت گئے۔ اس دوران کچھ علاقوں کو تو اس نے تلوار کے زور پر فتح کر لیا اور کچھ مقابلہ کیے بغیر ہی اس کے ساتھ مل گئے۔
شمال اور مغرب کی طرف سے کسی حد تک مطمئن ہوجانے کے بعد سکندر نے مشرق کی جانب نظر ڈالی تو اسے ایران کی وسیع و عریض سلطنت دکھائی دی۔ بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی اس سلطنت کا رقبہ لاکھوں میل تھا۔ اس میں دریا بھی تھے، پہاڑ بھی۔ صحرا بھی تھے اور جھیلیں بھی۔ غرض یہاں وہ سب کچھ موجود تھا جو کسی بھی علاقے کو خوش حال بنانے کے لیے ضروری ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ایرانی سلطنت پوری نہیں تو آدھی دنیا کی حیثیت ضرور رکھتی تھی۔ یہاں تقریباً ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ آباد تھے۔
ایرانی سلطنت پر حملے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایرانی شہنشاہ دارا نے سکندر کے مخالفین کی خفیہ طریقے سے مدد بھی شروع کر دی۔ دراصل ایرانی فوج میں ایک بڑی تعداد ایسے یونانیوں کی تھی جو شروع ہی سے اپنے پڑوسی ملک مقدونیہ کے خلاف رہے تھے۔ انہی کے اکسانے پر دارا نے یہ قدم اٹھایا تھا۔
334 قبل مسیح میں سکندر 35 ہزار فوج کے ساتھ مقدونیہ سے نکلا۔ اس فوج میں تیس ہزار سوار اور پانچ ہزار پیدل تھے۔ سکندر کی پیدل فوج کی مشہور ترین چیزمقدونوی "جتھا" تھا۔ یہ 256 فوجیوں کا مربع شکل کا دستہ تھا۔ یعنی ہر قطار میں سولہ سپاہی تھے اور ان قطاروں کی تعداد بھی سولہ ہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں جو نیزے ہوتے وہ بھی 16،16 فٹ لمبے ہوتے۔ یوں چلتے ہوئے جب پہلی پانچ قطاروں کے سپاہی اپنے نیزے آگے کی طرف بڑھاتے تو ان کی نوکیں پہلی قطار سے بھی آگے نکل جاتیں۔
مشرق کی طرف چلتے ہوئے دریائے "گرانی کوس" پر سکندر کا سامنا ایک قدرے چھوٹے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر میں بیس ہزار سوار اور بیس ہزار ہی پیدل سپاہی تھے۔ پیادوں میں زیادہ تر یونانی نسل کے لوگ تھے۔ لشکر کی کمان دارا کے قریبی لوگوں کے پاس تھی۔ ان میں اس کا داماد "سپتھراواتیس" بھی شامل تھا۔
سکندر کی فوج کا پتا چلتے ہی ایرانیوں نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ دریا کے ڈھلوان کنارے پر قبضہ کر نا تھا تاکہ دشمن فوج کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ لیکن اس بات پر سکندر ذرا نہ گھبرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی فوج کا ایک ایک سپاہی دل و جان سے اس کے ساتھ ہے۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ دشمن کے تیروں کی پروا کیے بغیر دریا پار کر لیں۔ بس ایک مرتبہ دوسرے کنارے پہنچ گئے، پھر ان کا دشمن پر قابو پانا مشکل نہیں ہو گا۔ سکندر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایشیائی لوگ جہاں گھڑ سواری میں ماہر ہیں وہاں پیدل لڑائی میں خاصے کمزور ہیں۔ مزید یہ کہ اس کے سپاہیوں کے پاس ایرانیوں کے مقابلے میں بہتر اسلحہ ہے۔۔۔۔۔ وہ سر سے پاؤں تک زرہ میں ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے نیزے ہلکے اور لمبے تھے۔
سکندر کی فوج کا "جتھا" درمیان میں تھا جب کہ دائیں اور بائیں طرف سوار تھے۔ دائیں طرف کے سواروں کی قیادت وہ خود کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا لیکن دریا کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں اس کی فوج دریا پار کر کے دشمن کے عین مقابل کھڑی تھی۔
گھمسان کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اونچائی پر ہونے کی وجہ سے شروع میں تو ایرانیوں کا پلا بھاری رہا لیکن بازی جلد ہی پلٹ گئی۔ مقدونوی فوج نے جب خود اپنے سپہ سالار کو دشمن کی صفوں میں گھستے دیکھا تو ان کی ہمت بندھ گئی اور انہوں نے ایرانیوں پر کاری ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ سکندر چمک دار زرہ پہنے اور سر پر مقدونوی کلغی سجائے ایک شان سے آگے بڑھا اور سیدھا اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ایرانی سپہ سالار جمع تھے۔ وہ اس قدر بہادری سے لڑا کہ آن کی آن میں ایرانی سپہ سالاروں کی لاشیں گرنے لگیں۔ سکندر کے بازوؤں کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لڑتے لڑتے اس کے نیزے کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ تب اس نے اپنے سائیس (گھوڑے کی نگرانی کے لیے رکھا گیا ملازم) کا نیزہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور لڑتے لڑتے اسے بھی توڑ ڈالا۔
تب اس کے ایک سپہ سالار "دیماراتوس" نے اپنا نیزہ اس کے ہاتھ میں دے دیا اور اس نیزے کے ایک ہی وار سے اس نے دارا کے داماد "سپتھراواتیس" کا کام تمام کر دیا۔
جنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی۔ اسی طرح اچانک ختم بھی ہوگئی۔ کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان کے ایک ہزار گھڑ سوار مارے گئے، باقیوں نے بھی بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی۔ ایرانی سپہ سالار کی بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ ان ہزاروں پیدل سپاہیوں کا استعمال کرنا بالکل بھول ہی گئے جو یونانی نسل کے تھے اور ایرانی فوج میں اجرت پر بھرتی ہوئے تھے۔ یہ جنگ کے پورے عرصے کے دوران میں ایک جانب خاموشی سے کھڑے رہے اور آخر میں مقدونویوں نے ان میں سے دو ہزار کو تو گرفتار کر لیا، باقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دوسری طرف مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ ان کے ساٹھ سوار اور 30 پیادے مارے گئے۔ البتہ ان مرنے والوں میں ایسے بھی تھے جو سکندر کے خاص آدمی کہے جا سکتے ہیں۔
گرانی کوس کی فتح کے بعد سکندر کا سامنا "اسوس" (شام کا شہر) کے مقام پر ایک بہت بڑے ایرانی لشکر سے ہوا۔ اس لشکر کی قیادت خود دارا کر رہا تھا اور اس میں تقریباً ایک لا کھ سپاہی تھے۔ لیکن یہاں بھی ہمت ہارنے کے بجائے سکندر نے اعلی جنگی حکمت عملی اپنائی اور جلد ہی دشمن کے پیر اکھاڑ دیے۔ ایک دفعہ پھر کئی ایرانی جرنیل میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دارا نے تو بھاگتے ہوئے یہ بھی پروا نہ کی کہ اس کے خیمے میں اس کی ماں اور بیوی بچے موجود ہیں۔
اس جنگ میں بھی ایرانیوں کا بھاری نقصان ہوا جبکہ مقدونویوں کا نقصان نہایت کم تھا۔ سکندر نے دشمن کی ایک بہت بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔ لیکن دارا کے بیوی بچوں کے ساتھ اس نے نہایت عمدہ سلوک کیا۔
٭٭٭٭
اب سکندر کا اگلا ہدف مصر تھا لیکن اس کے راستے میں چند ایک ایسے علاقے تھے جو اس سے مقابلہ کرنے پر تیار تھے۔ ان میں پہلا "صور" شہر تھا۔ صور والوں کو جب پتا چلا کہ سکندر ان کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اپنے قلعے میں محصور ہو گئے۔ صور ایک جزیرہ تھا یعنی اس کے چاروں اطراف میں پانی تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے سکندر نے فوراً ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد قلعے پر ہلہ بول دیا گیا۔ چند ہی دنوں میں یہ اہم شہر بھی فتح ہو گیا تھا۔
صور کے محاصرے کے دوران میں سکندر کو دارا کا پیغام ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اس کے بیوی بچوں کو چھوڑ دے۔ اس کے بدلے اسے آدھی ایرانی سلطنت دے دی جائے گی۔ یہ پیغام سن کر سکندر کا خاص آدمی "پارمے نیو" کہنے لگا کہ اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیش کش قبول کر لیتا۔ اس پر سکندر بہت خفا ہوا۔ وہ کہنے لگا:
"اگر سکندر، "پارمے نیو" ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا۔"
اس نے دارا کی یہ پیش کش مسترد کر دی اور پیغام بھجوایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور پیش کش ہے تو دارا خود آ کر بات کرے۔
صور کے بعد "غزہ" شہر کی باری آئی۔ اس کی فتح کے بعد سکندر مصر میں داخل ہوا اور توقع کے بر خلاف یہاں کے حکمران نے بغیر کسی فوجی کارروائی کے سکندر کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ دریائے نیل کے راستے سمندر کی طرف بڑھا اور ایک مناسب جگہ پر پڑاؤ ڈالی اور ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ اس قدیم شہر کا نام اسکندریہ ہے اور یہ آج بھی مصر کے اہم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
331 ق م میں سکندر نے پھر مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔ اس نے سب سے پہلے عراق کا مشہور دریا فرات عبور کیا اور قدیم شہر نینوا کے قریب "گوگا میلا" کے مقام پر اس کا سامنا شہنشاہ ایران کی عظیم الشان فوج سے ہوا (نینوا وہی شہر ہے جہاں حضرت یونس پیدا ہوئے تھے)۔
بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ گوگا میلا کی جنگ میں دارا کی فوج میں کم و بیش دس لاکھ پیادے، چالیس ہزار سوار، دو سو تلوار باز رتھ (بیل گاڑی کی ایک قسم)، پندرہ ہاتھی اور بے شمار یونانی سپاہی تھے۔ دارا نے لڑائی کے لیے مقام کا انتخاب بھی بڑا دیکھ سوچ کر کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ رتھ اونچی نیچی جگہوں پر نہیں چل سکتے۔ اس لیے اس نے ان کے لیے ایک مخصوص جگہ پر زمین کو بالکل ہموار کرا لیا تھا۔
اپنے سے بیس گنا بڑی فوج دیکھ کر بھی سکندر گھبرایا نہیں بلکہ اس کے ذہن نے فوراً لڑائی کا ایک شان دارمنصوبہ بنا لیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے جرنیلوں کو بلا کر ایسی پر جوش تقریر کی کہ سب کی ہمت بندھ گئی۔ اس کے بعد اس نے حملے میں پہل کرنے کے بجائے انتظار کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران اس نے اپنے سپاہیوں کو مکمل آرام کرنے کا موقع دیا تاکہ جنگ شروع ہونے تک وہ بالکل تازہ دم اور چاق وچوبند ہو جائیں۔ اس کے برعکس ایرانی سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں سے مسلسل سنتریوں کا کام لے کر انہیں تھکا دیا تھا۔
دارا نے اپنی فوج کی ترتیب اس طرح سے کی تھی کہ خود درمیان میں تھا اور دائیں بائیں، آگے پیچھے اس کے نہایت قابل اعتماد آدمی تھے۔ ادھر مقدونوی سپہ سالار سکندر کو معلوم تھا کہ کسی بھی فوج کی دائیں طرف کا دستہ جنگ کے دوران سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس نے اس کی قیادت اپنے نہایت بہادر اور قابل اعتماد جرنیل "پارمے نیو" کو سونپی اورانتہائی دائیں جانب فوجیوں کی ایک اضافی قطار بھی متعین کی تاکہ کسی اچانک حملے کی صورت میں موثر دفاع کیا جا سکے۔
لڑائی شروع ہوئی تو دونوں فریقوں کو اپنی فتح کا یقین تھا۔ سکندر کے پاس نہ صرف اچھا ذہن تھا بلکہ اس کے پاس اچھے ہتھیار بھی تھے۔ وہ پہلے بھی ایرانیوں پر فتح حاصل کر چکا تھا۔ یہی باتیں اس کے اعتماد کا باعث تھیں۔ دوسری جانب دارا کو تعداد کی برتری کی وجہ سے فتح کی امید تھی۔
لڑائی کا آغاز دارا ہی کی طرف سے ہوا اور اس نے سب سے پہلے اپنے رتھ روانہ کیے۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ دشمن کی فوج میں کھلبلی مچا دیں گے۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ مقدونوی سپاہی بڑی مہارت سے اپنا دفاع کر رہے ہیں تو اس نے پیادوں کو وار کرنے کا حکم دے دیا۔ یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اسی کی توقع سکندر کر رہا تھا۔ پیادوں کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب لڑائی آخر مراحل میں ہو اور دشمن پر آخری وار کرنا ہو۔ پھر کیا تھا، پیادوں کے حرکت میں آتے ہی ایرانی فوج کی ترتیب بالکل ہی ختم ہوگئی اور ان کی صفوں میں خلا آ گیا۔
یہ دیکھتے ہی سکندر نے اپنے نیزہ برداروں اور مقدونوی جتھوں کو حملے کا حکم دیا۔ اس حملے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی قیادت خود سکندر کر رہا تھا۔
"گرانی کوس" کے معرکے کی طرح اس مرتبہ بھی سکندر نے پہلے ایرانی فوج کے بڑے بڑے جرنیلوں کو نشانہ بنایا اور آن کی آن میں ان کی لاشیں کٹ کٹ کر گرنے لگیں۔
دارا نے جب ایک کے بعد ایک آدمی کو گرتے دیکھا تو وہ ہمت ہار بیٹھا اور میدان سے بھاگ نکلا۔ بس یہی اس جنگ کا انجام بھی تھا۔ اس کے بعد اگرچہ ایرانی فوج کے جتھوں نے تھوڑی بہت مزاحمت کی لیکن یہ انفرادی سطح پر تھی اور یہی وجہ ہے کہ مقدونوی فوج کا بال بھی بیکا نہ ہو سکا۔
سکندر نے جب دیکھا کہ اس کے سپاہیوں نے میدان مار لیا ہے تو وہ دارا کے تعاقب میں نکلا تاکہ بار بار کے معرکوں کے بجائے ایک ہی دفعہ اس کا کام تمام کر دے۔ لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آیا۔
کہا جاتا ہے کہ بعد میں بعض ایرانی جرنیلوں نے خود ہی مل کر اسے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ موجودہ ایران کے دارالحکومت ایران کے پاس پیش آیا۔ سکندر جب اس جگہ پہنچا تو اسے دارا کی لاش ہی ملی۔ تب اس نے اسے واپس مصطـخر (ایرانی سلطنت کا دارالخلافہ) روانہ کر دیا اور حکم دیا کہ اسے تمام شاہی اعزازات کے ساتھ دفنایا جائے۔
٭٭٭
ان پے در پے کامیابیوں کے بعد حالات میں بہت سی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ سکندر کی فوج اب وہ نہیں رہی تھی جو مقدونیہ سے روانگی کے وقت تھی۔ اس کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اس نے ایرانی سلطنت کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں کے لوگوں نے بھی اس کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ وہ یونانی سپاہی جو اجرت پر ایرانی فوج کے لیے لڑ رہے تھے، اب سکندر کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور سکندر نے ان کے لیے وہی معاوضہ مقرر کیا تھا جو انہیں شہنشاہ ایران کی طرف سے ملتا تھا۔
ان سب باتوں کے علاوہ خود سکندر کی طبیعت میں بھی بہت تبدیلیاں آگئی تھیں۔ اس کے احساس خود داری میں اس حد تک اضافہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو یونانی "دیوتا زیوس" کی اولاد سمجھنے لگا اور اپنے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے قریبی دوست "لکی توس" نے اس کو دیوتا ماننے سے انکار کر دیا تو غصے کے عالم میں سکندر نے اپنا نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ کر اسے مار ڈالا۔
٭٭٭
ایران کی فتح کے بعد بہت سے لوگوں نے سکندر کو مشورہ دیا کہ اس نے بہت سی فتوحات حاصل کر لیں، اب وہ واپسی کی راہ لے لیکن اس پر تو دنیا کی فتح کا بھوت سوار تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک ہندوستان کو فتح نہیں کرلیتا۔
یہ 327 ق م کی بات ہے۔ جب اس نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت اس کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار پیادے اور پندرہ ہزار سوار شامل تھے۔ کابل پہنچ کر اس نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے کو براہ راست دریائے سندھ کی طرف روانہ کیا گیا اور دوسرا حصہ خود سکندر کی قیادت میں شمال کی طرف سے آگے بڑھا۔ یہاں اس نے ایک ایسا قلعہ فتح کیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ روم کا بادشاہ ہرقل بھی اسے فتح نہیں کر پایا تھا۔
کوہ مور کے قریب نیسا کے مقام پر دونوں فوجیں آپس میں مل گئیں اور انہوں نے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا۔ اس کے بعد دریائے جہلم کے قریب اس کا سامنا ہندوستانی راجہ پورس سے ہوا۔
سکندر کو معلوم تھا کہ وہ پورس کا مقابلہ اس طرح سے نہیں کر سکتا جس طرح اس نے دارا کا مقابلہ کیا تھا۔ یعنی وہ سامنے سے حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ راجہ پورس کی بہادری کے قصے اس نے سن رکھے تھے۔ تب اس نے ایک جنگی چال چلی۔ اس نے ایک جرنیل کی قیادت میں اپنی فوج کا کچھ حصہ پورس کے سامنے کر دیا اور باقی فوج لے کر ایک اور مقام کی طرف چل پڑا۔ اس سے پورس یہی خیال کرتا کہ مقدونوی فوج کے وہی مٹھی بھر سپاہی ہیں جو اس کے سامنے ہیں لیکن اس کی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر سکندر ایک طرف سے حملہ کر دیتا۔
لڑائی شروع ہو گئی۔ پورس کو سکندر کی موجودگی کا اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک وہ دریا پار نہیں کر چکا تھا۔ تب اس نے فوراً اپنے بیٹے کی کمان میں ایک دستہ سکندر کی طرف روانہ کیا۔ لیکن سکندر تو بڑے بڑے سپہ سالاروں اور جرنیلوں سے دو دو ہاتھ کر چکا تھا، یہ نوجوان اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورس کا بیٹا مارا گیا اور اب سکندر کے سامنے میدان بالکل صاف ہو گیا۔ اس نے اسی وقت پورس کی فوج پر ہلہ بول دیا۔
ایرانیوں کے برعکس پورس بہت بہادری سے لڑا۔ اس کے لشکر میں 180 ہاتھی بھی شامل تھے۔ انہی سے مقدونوی فوج کو زیادہ خطرہ تھا۔ کیوں کہ ہاتھیوں کو دیکھ کر گھوڑے ہیبت زدہ ہو جاتے ہیں اور اپنے مالک کا بھی کہا نہیں مانتے۔ اس مصیبت کا علاج سکندرنے یوں کیا کہ جوں ہی ہاتھی حملہ آور ہوئے اس نے اپنے سواروں کو دو قطاروں میں بانٹ دیا۔۔۔۔۔ایک ہاتھیوں کے بائیں اور دوسری دائیں طرف۔ یہ سوار ہاتھیوں کو دھکیلتے ہوئے ایک تنگ سی گھاٹی میں لے آ ئے۔ یہاں آ کر ہاتھی بدک گئے اور خود اپنی فوج کے لیے مصیبت بن گئے۔
اس معرکے میں پورس کے بیس ہزار آدمی اور سو ہاتھی مارے گئے لیکن اس سب کے باوجود پورس نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل لڑتا رہا۔ اس نے اس وقت تک ہار نہ مانی جب تک اس کا جسم زخموں سے چور ہو کر بالکل نڈھال نہیں ہو گیا۔
پورس کو گرفتار کرکے اسی روز سکندر کے سامنے پیش کیا گیا۔ سکندر کی یہ عادت تھی کہ دشمن کا جو بھی آدمی گرفتار ہو کر آتا اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع ضرور دیتا تھا۔ اس نے پورس سے پوچھا:
"بتاؤ، تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟"
پورس نے جواب دیا: "وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے۔"
سکندر میدان جنگ میں پورس کی بہادری سے تو پہلے ہی متاثر تھا، اب اس کی گفتگو نے بھی اسے کم متاثر نہیں کیا۔ اور بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ اس نے پورس کو معاف کر دیا اور اس کا تمام علاقہ بھی واپس کر دیا۔ اس کے جواب میں راجہ بھی اس کا دوست بن گیا۔
سکندر کو ہندوستان کے اندر تک جانے اور اس کے عجائبات دیکھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کا یہی شوق اور تجسس تھا جس نے اسے یہاں آنے پر مجبور کیا تھا۔ ورنہ ایرانی سلطنت پر قبضہ کیا کم تھا کہ وہ اور کی لالچ کرتا۔ تاہم جب اس نے جہلم سے آگے چلنے کا ارادہ کیا تو اس موقع پر اس کی فوج نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں کی مسلسل مشقت نے انہیں سخت تھکا دیا تھا اور اب ان میں مزید مہمات سر کرنے کی بالکل ہمت نہیں رہی تھی۔ تب سکندر نے انتہائی سمجھ بوجھ کا ثبوت دیتے ہوئے وہی کیا جو اس کے سپاہی چاہتے تھے۔ ہندوستان کو فتح کرنے کی اپنی تمام تر خواہش کے باوجود وہ ان کی بات مان گیا اور یہیں سے اس نے واپسی کا فیصلہ کیا۔
لیکن اس عظیم سپہ سالار کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ وہ چاہتا تو یہی تھا کہ اپنے سر پر آدھی دنیا کی فتح کا تاج سجائے اپنے آبائی شہر مقدونیہ میں داخل ہو لیکن ابھی وہ "بابل" ہی میں تھا کہ ایسا بیمار ہوا کہ دوبارہ صحت یاب نہ ہو سکا اور وہیں اس نے موت کو گلے لگا لیا۔
٭٭٭
سکندر نے 33 سال عمر پائی۔ وہ 356 ق م (یعنی حضرت عیسی کی پیدایش سے 356 سال قبل) میں پیدا ہوا اور اس کا انتقال 323 ق م میں ہوا۔ لگ بھگ آدھی دنیا تو اس نے اس جوانی ہی میں فتح کر لی۔ کہتے ہیں اگر وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہ لیتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوری دنیا کا فاتح نہ بن جاتا
0 comments:
Post a Comment